tag:blogger.com,1999:blog-57010292179471698132024-02-08T09:11:30.316-08:00shab BaratWafaSofthttp://www.blogger.com/profile/12702219338435167316noreply@blogger.comBlogger4125tag:blogger.com,1999:blog-5701029217947169813.post-69708375736094858362020-03-27T21:01:00.006-07:002020-03-27T21:01:32.251-07:00حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<h2 style="text-align: right;">
حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم</h2>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
(۱) حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب کسی کافرزند وفات پا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے فرماتا ہے کہ کیا تم نے میرے بندے کے فرزند کو وفات دے دی؟ تو فرشتے عرض کرتے ہیں کہ جی ہاں پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا تم نے اس کے دل کے پھل کو چھین لیا؟ تو فرشتے کہتے ہیں کہ جی ہاں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس وقت میرے بندے نے کیا کہا ؟تو فرشتے کہتے ہیں کہ تیرے بندے نے تیری حمد کی اورانا للہ پڑھا۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ تم میرے بندے کے لیے جنت میں ایک گھر بنادو اور اس گھر کا نام ''بیت الحمد''(حمد کا گھر)رکھ دو۔(2)(مشکوٰۃج۱ص۱۵۱ بحوالہ ترمذی)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
(۲) حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
وآلہ وسلم کے فرزند حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے وقت آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ گئے تو صاحبزادہ کی جانکنی کا منظر دیکھ کر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی دونوں آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے تو عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ!عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ! کیا آپ رو رہے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے عوف کے بیٹے! رضی اللہ تعالیٰ عنہ میرا یہ آنسو بہانا شفقت ہے، پھر دوبارہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے آنسو بہنے لگے تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ان العین تدمع والقلب یحزن ولا نقول الا ما یرضی ربنا وانا بفراقک یا ابراہیم لمحزونون۔ یعنی آنکھ آنسو بہاتی ہے اور دل غمگین ہے اور ہم وہی بات کہتے ہیں جس سے ہمارا رب عزوجل راضی ہو اور بلاشبہ اے ابراہیم! رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہم تمہاری جدائی پر غمگین ہیں۔(1)(مشکوٰۃج۱ص۱۵۰ بحوالہ بخاری ومسلم)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
(۳) حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے فرزند کی وفات کے وقت آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ان کے مکان پر تشریف لے گئے اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ سعد بن عبادہ و معاذ بن جبل و اُبی بن کعب و زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہم وغیرہ بھی تھے تو بچہ اس وقت آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی گود میں دیا گیا جب کہ وہ جانکنی کے عالم میں تڑپ رہا تھا تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے تو حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ یارسول اللہ! عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم یہ کیا؟ تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاکہ یہ شفقت ہے جو اللہتعالیٰ نے اپنے بندوں کے دل میں ڈال دی ہے اور اللہ تعالیٰ انھیں بندوں پر رحم فرماتا ہے جو دوسروں پر رحم کرتے ہیں۔(1)(مشکوٰۃج۱ص۱۵۰ بحوالہ بخاری ومسلم)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
(۴) ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمیشہ اپنے بچے کو لے کر بارگاہ رسالت میں آیا کرتے تھے ایک بار وہ تنہا آئے تو حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا کہ تمہارے بچہ کوکیا ہوا؟ تو انہوں نے کہا کہ وہ تو مر گیا یارسول اللہ!عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم۔ تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کیا تم اس کو پسند نہیں کرتے کہ تم جنت کے جس پھاٹک پر بھی جاؤ گے تو وہ تمہارا بچہ تمہارا انتظار کررہا ہوگا۔(2)(مشکوٰۃج۱ص۱۵۳ )</div>
</div>
WafaSofthttp://www.blogger.com/profile/12702219338435167316noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5701029217947169813.post-35739329130294396392020-03-27T21:00:00.003-07:002020-03-27T21:00:47.347-07:00 فرزدق شاعر<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
فرزدق شاعر</h2>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
یہ بہت ہی مشہور شاعر ہے جو اہلِ بیت کا بہت ہی محب و مداح تھا۔ جب اس کی بیوی کا انتقال ہوا تو بصرہ کے تمام شرفاء و رؤساجنازہ میں شامل ہوئے۔ قبرستان میں حضرت خوا جہ حسن بصری رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے فرزدق سے پوچھا کہ کیوں فرزدق! تم نے اس دن کے لیے کون سی تیاری کررکھی ہے؟ تو فرزدق نے جواب دیاکہ میری بس یہی تیاری ہے کہ ساٹھ برس سے کلمہ پڑھتا رہا ہوں، پھر فرزدق اپنی بیوی کی قبر کے پاس دردناک لہجے میں یہ اشعار پڑھنے لگا:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
اخاف وراء القبر ان لم تعافنی </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
اشد من القبر التھابا واضیقا</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
(اے اللہ!عزوجل) اگر تو نے مجھے معاف نہ کردیا تو قبرکے علاوہ قبرسے زیادہ تنگ جگہ اوربھڑکنے والی آگ کا مجھے خوف ہے</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
اذا جاء یوم القیامۃ قائد</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
عنیف وسواق یسوق الفرزدقا</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
قیامت کے دن جب ایک بہت ہی سخت مزاج کھینچنے والا اور ہانکنے والا فرزدق کو لے چلے گا</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
لقد خاب من اولاد آدم من مشی</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
الی النار مغلول القلادۃ ازرقااولاد ِ آدم میں سے جو شخص جہنم کی طرف گردن میں طوق پہنے ہوئے روسیاہ ہو کر جائے گا وہ بہت ہی نامراد ہوگا۔(1)(احیاء العلوم ج۴ص۴۱۳)</div>
</div>
WafaSofthttp://www.blogger.com/profile/12702219338435167316noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5701029217947169813.post-60982953060412675242020-03-27T20:59:00.004-07:002020-03-27T20:59:57.726-07:00(۱۲)حضرت فاطمہ بنت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
(۱۲)حضرت فاطمہ بنت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما</h2>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
یہ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صاحبزادی ہیں جو عام طور پر ''فاطمہ صغریٰ'' کے لقب سے مشہور ہیں جب ان کے شوہر حسن بن امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہماکا وصال ہوگیا تو انہوں نے ان کے جنازہ کو دیکھ کر یہ شعر پڑھا کہ</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
وکا نوا رجاء ثم امسوا رزیۃ</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
لقد عظمت تلک الرزایا وجلت</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
یہ لوگ امید تھے پھر شام کو مصیبت بن گئے تو یہ مصیبتیں بہت زیادہ اور بڑی شاندار ہوگئیں۔ پھر انہوں نے اپنے شوہر کی قبر کے پاس ایک خیمہ گاڑا اور مسلسل ایک سال تک وہ اسی خیمہ میں رہیں۔ سال بھر کے بعد خیمہ اکھاڑ کر جب وہ اپنے مکان پر جانے لگیں تو مدینہ منورہ کے قبرستان جنۃ البقیع کے ایک جانب سے ایک غیبی آواز آئی۔ کہ الا ھل وجدوا مافقدوا (خبردار!کیا ان لوگوں نے اس چیز کو پالیاجس کو کھودیا تھا) تو دوسرے کنارے سے یہ آواز آئی کہ</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
بل یئسوا فانقلبوا ( نہیں بلکہ ناامید ہوگئے</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
لہٰذا پلٹ کر اپنے گھر چلے گئے) ان دونوں آوازوں کو لوگوں نے سنا مگر آواز دینے والوں کو کسی نے نہ دیکھا۔(1)(مشکوٰۃج۱ص۱۵۲واحیاء العلوم ج۴ص۴۱۳)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
</div>
WafaSofthttp://www.blogger.com/profile/12702219338435167316noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5701029217947169813.post-65048757944379863512020-03-27T20:59:00.000-07:002020-03-27T20:59:20.272-07:00 ایک عابد کبیر<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
(۱۱) ایک عابد کبیر</h2>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
منقول ہے کہ ایک شرابی اور بڑا ہی پاپی بدکار بصرہ کے اطراف میں رہتا تھا۔ اس کا انتقال ہوا تو چونکہ پورا گاؤں اس سے ناراض و بیزار تھا کوئی شخص اس کا جنازہ اٹھانے اور نماز جنازہ پڑھنے کے لیے تیار نہیں ہوا مجبورا ً اس کی بیوی نے دو مزدوروں</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<div>
سے جنازہ اٹھوا کر قبرستان تک پہنچایا اور گاؤں کا ایک بھی آدمی قبرستان تک نہیں آیا۔ اس گاؤ ں کے قریب ایک پہاڑ پر ایک بڑے بزرگ زاہد و عابد عبادت میں مشغول رہا کرتے تھے اور یہ بزرگ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تمام گاؤں والوں کے پیرومُرشدتھے۔ اس بزرگ نے پہاڑ کے اوپر سے دیکھا کہ ایک عورت جنازہ کے پاس ہے اور کوئی نماز جنازہ پڑھنے والا نہیں ہے تو یہ بزرگ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جو کبھی پہاڑ سے نہیں اترتے تھے پہاڑ سے اتر پڑے جب گاؤں والوں کو معلوم ہوا کہ ہمارے پیرومرشد اس بدکار کی نماز جنازہ پڑھانے کے لیے پہاڑ سے اتر پڑے ہیں تو سارا گاؤں قبرستان میں پہنچ گیا پھر اس بزرگ اور تمام گاؤں والوں نے اس کی نماز جنازہ پڑھ کر اس کو دفن کیا۔</div>
<div>
<br /></div>
<div>
پھر اس بزرگ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ میں سورہا تھا تو میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک عورت جنازہ لیے بیٹھی ہے اور کوئی نماز جنازہ پڑھانے والا نہیں ہے تو خواب ہی میں کسی نے مجھ سے کہا کہ تم پہاڑ سے اتر کر اس کے جنازہ کی نماز پڑھاؤ کیونکہ اس میت کی مغفرت ہوچکی ہے اس خواب کو سن کر لوگ تعجب سے سردھننے لگے۔ پھر اس بزرگ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے اس عورت سے اس کے شوہر کا حال پوچھا تو اس عورت نے بتایا کہ لوگ سچ کہتے ہیں کہ میرا شوہر بہت بدکار اور بڑا گناہ گار تھا۔ واقعی وہ دن بھر شراب خانہ ہی میں رہتا تھا۔ پھر بزرگ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے دریافت کیا کہ تم نے اس کا کوئی نیک عمل بھی دیکھا ہے ؟تو عورت نے کہا کہ ہاں وہ گناہ گار ہونے کے باوجود تین اچھی باتوں کا پابند تھا۔ ایک تو یہ کہ وہ رات بھر شراب خانہ میں شراب پیتا تھا مگر جب صبح کو اس کا نشہ اتر جاتا تو وہ غسل و وضو کرکے کپڑے بدلتا اور نماز فجر جماعت سے پڑھا کرتا تھا۔ پھر وہ شراب خانہ میں جا کر فسق و فجور میں پڑ جاتا</div>
<div>
تھا۔ دوسری اچھی بات یہ تھی کہ وہ ہمیشہ ایک یاد و یتیم بچوں کو اپنے گھر میں رکھتا تھا اور ان یتیموں کے ساتھ اپنے بچوں سے بڑھ کر اچھا سلوک کیا کرتا تھا۔ تیسری اچھی بات یہ ہے کہ رات میں جب کبھی بھی اس کا نشہ ا ترتا تھا تو وہ اکیلا زار زار روتا تھا اور یہی کہتا تھا کہ اے میرے رب!عزوجل تو جہنم کے کون سے گوشہ میں مجھ خبیث کو ڈالے گا۔ یہ سن کر بزرگ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ اس کی مغفرت کا راز سمجھ گئے۔ پھر وہ اس میت کے لیے دعائیں کرتے ہوئے پہاڑ پر چڑھ گئے۔(1)(احیاء العلوم ج۴ص۴۱۲)</div>
</div>
</div>
WafaSofthttp://www.blogger.com/profile/12702219338435167316noreply@blogger.com0